Posts

14 اگست ۔ نظریہ پاکستان کی تکمیل کا دن

ماہِ اگست کے آغاز ہی سے یومِ آزادی مثل شادی منانے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ ہر طرف گہماگہمی کا سماں ہوتا ہے۔ وطنِ عزیز کے شہروں اور دیہاتوں کے گلی کوچوں کو خوب سجایا جاتا ہے پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر یومِ آزادی کی مناسبت سے بہت کچھ پڑھنے اور سننے کو میسر آتا ہے۔ تاہم یومِ آزادی کے تناظر میں یہ عظیم دن پاکستانی قوم سے کیا تقاضے رکھتا ہے اور ان تقاضوں کی تکمیل کے ضمن میں ہماری من حیث القوم کیا ترجیحات اور ذمہ داریاں ہیں،ان عوامل کو پورے سیاق وسباق کے ساتھ اجاگر کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید اتنی کبھی پہلے نہ تھی۔ بنا بریں، ذیلی سطور میں انہی خطوط پرروشنی ڈالنے کی سعی کی گئی ہے۔ اس مبارک دن کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ہماری موجودہ نسل کو مملکت خداداد پاکستان کے قیام کے پس منظر سے پوری طرح روشناس کرانے کی بہت سخت ضرورت ہے۔ انہیں اس بات کا کامل ادراک ہونا چاہیے کہ آزادی سے پہلے ہم تمام کلمہ گو مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سب کے سب غیر مسلموں کے قبضے میں تھے۔ ہماری تہذیب و تمدن، ہماری ثقافت و شرافت، ہماری عزت و ناموس، ہمارا قرآن، ہمارا ایمان، ہمارا اسلام، سرورِ کائنات کا پیغام...

کرومبر کنارے ایک سرد رات

Image
(پہلا حصہ) ایک عرصہ ہوا کہ اذلان اب مجھ سے چپک کر نہیں سوتا۔ اس کی جگہ اب ابراہیم نے سنبھال لی ہے۔ اب ہر روز ابراہیم مجھ سے چپک کر سوتا ہے مگر اس رات نہ جانے کیوں اذلان میرے ساتھ لیٹ گیا، جیسے اسے کوئی الہام ہوا ہو۔ اب صورت حال یہ تھی کہ اذلان میرے ساتھ سوا ہوا تھا اور اذلان کے بالکل ساتھ ابراہیم۔ ابھی میری آنکھ لگی ہی تھی کہ کسی نے میرے پاؤں پر اپنے پنکھ پھیرے۔ میں چوں کہ ابھی کچی نیند میں تھا، اس لیے فوراً اٹھ بیٹھا۔ میرے قدموں کے پاس ہی ایک ’’سی مرغ‘‘ (سیمرغ) تھا جس کے پنکھ کی وجہ سے میری آنکھ کھلی تھی۔ میں نے ذرا اوپر چھت کی طرف دیکھا تو اپنا سر قرۃ العین طاہرہ کی گود میں پایا جب کہ میری دائیں جانب منصور حلاج کھڑے تھے۔ منصور حلاج نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے بستر سے نیچے اتار دیا۔ میں نہ کچھ بول سکا، نہ سمجھ سکا۔ قرۃ العین طاہرہ نے اپنے ہاتھ میرے بالوں میں ہاتھ پھیر کر انھیں سنوارا اور ہم تینوں سی مرغ پر سوار ہوگئے۔ میں نہیں جانتا کہ ایسا میرے ساتھ سچ مچ ہو رہا تھا یا یہ میرا فقط خواب تھا۔ میں نے بچوں کو سوتا ہوا چھوڑا اور سی مرغ پرواز کر گیا۔ میں کسی بھی بات کو نہ سمجھ سکا۔ سی م...

بیروزگاری کی دلدل میں دھنستا بھارت

Image
وجے منکر نے اپنی بہن سے 300 روپے ادھار لیے اور مہاراشٹر ریاست میں ناسک شہر کے قریب اپنے آبائی قصبے سے بھارت کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی تک 200 کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے شدید بارشوں کا مقابلہ کیا۔ 28 سالہ کامرس گریجویٹ ایک ایٔر لائن کی ملازمت کے لیے انٹرویو میں شرکت کر رہا تھا۔ لیکن اسے ابتدائی طور پر انٹرویو کی تفصیلات کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ وہ بتاتا ہے ’’ممبئی پہنچنے کے بعد مجھے پتا چلا کہ کام ہوائی جہازوں میں کارگو لوڈنگ اور ان لوڈ کرنا تھا۔ اس کے لیے گریجویٹ ڈگری کی بھی ضرورت نہیںتھی۔یہ جان کر مجھے شدید مایوسی ہوئی کیونکہ میرا ممبئی آنا بیکار گیا۔ میں ورکر کی نوکری کرنے کو تیار نہ تھا۔میں نے تو نوکری کے انٹرویو کے لیے اپنے کپڑے استری کرانے کی خاطر ایک دوست سے 20 روپے ادھار لیے تھے۔‘‘ وہ بھیگتا ہوا گھر واپس آیا اور سخت مایوسی محسوس کر رہا تھا۔ لیکن وجے غم وغصہ محسوس کرنے والا تنہا نوجوان نہیں تھا، تقریباً 25 ہزار دیگر درخواست دہندگان نے جاب فیٔر کو خالی ہاتھ چھوڑ دیا، کیونکہ مقامی حکام زیادہ ہجوم کی وجہ سے انٹرویو نہیں لے سکے اور صرف ان کے درخواست فارم جمع کیے گئے۔وجے منک...

یکم اگست آئین کا عالمی دن

Image
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یکم اگست 2024 ء کو آئین کا عالمی دن پوری دنیا میں منایا جا رہا ہے واضح رہے کہ ہمار ا آئین 1973 ء بھی 14 اگست 1973 ء سے نافذالعمل ہوا تھا اور گذشتہ سال یعنی2023 ء کو ہم نے اپنے آئین کی 50 ویں سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی تھی اور بلوچستان یونیورسٹی میں صوبے کی بارہ یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کے درمیان ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے آئین کے موضوع پر ایک تقریری مقابلہ بھی منعقد ہوا تھا جس کے مصنفین میں راقم الحروف اور معروف دانشور شاعر سرور جاوید شامل تھے ۔ آئین کی بلوچستان کے اعتبار سے اہمیت یہ ہے کہ 1935 ء قانون ِ ہند کے بعد جب 1956ء کا پارلیمانی آئین اور 1962ء کے صدراتی آئین ملک میں نا فذالعمل ہوئے تو اِن تینوں دساتیر میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ حاصل نہیں تھا ۔ 1970 ء کے عام انتخابات آزادی کے بعد ملک کے پہلے انتخابات تھے جو پارلیمانی طرز کی نئی دستور ساز اسمبلی کے لیے منعقد ہو رہے تھے ۔ صدر جنرل یحییٰ خان نے 25 مارچ 1969 ء کو صدر محمد ایوب خان کے استعفیٰ کے بعد اقتدار سنبھالا، 1962 ء کا صدارتی آئین منسوخ کر کے مارشل لا نافذ کیا، صدر یحیٰی خان نے لی...

زباں فہمی نمبر218؛ اردو اور سندھی کے لسانی تعلق پر ایک نظر(حصہ چہارم/آخر)

ویب ڈیسک:  میر حیدر الدین ابوتُراب کامل ایک گوشہ نشین بزرگ تھے جنھوں نے اپنے تین دیوان سندھی، اردو اور فارسی میں یادگار چھوڑے۔ اُن کے شاگرد میر علی شیر قانع کے بیان کے مطابق کاملؔ نے اپنے کلام کے دس ضخیم مسودے تیار کرکے ایک اورشاگرد میاں محمد پناہ رِجاؔ ٹھٹوی کو برائے تدوین دیے تھے۔ یہ کلہوڑا دورکی بات ہے جب ٹھٹہ پر ہنوز مغل صوبے دار ہی حاکم تھے اور اُردو کے شعراء وقتاً فوقتاً سندھ تشریف لاتے تھے جن سے ملاقاتوں کے نتیجے میں سندھ کے فارسی گوشعراء نے اُردو میں بھی شعرکہنے شروع کیے۔انہی میں میر کاملؔ بھی شامل تھے۔قانع کے الفاظ میں کاملؔ اُس دور کے بے مثل ایہام گو شعراء میں شامل تھے۔انھوں نے غزل، منقبت اور کبت و دوہرہ جیسی اصناف ِ سخن میں بہت اعلیٰ کلام پیش کیا۔نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں: ےُو جلا کھیل میں ےُو جاتا ہوں (ےُو: یوں۔س اص) شمع رُو کا پتنگ اُڑانا کیا یہاں بہت ہی باریک سا نکتہ ہے۔شمع رُو سے معلوم ہواکہ شاعر نے محبوب کو شمع کی طرح روشن کہا اور پھر اُس کا پتنگ اُڑانا یعنی گویا پتنگے اُڑانا ایک عجیب اور ناقابل ِ فہم قسم کا تماشا قراردے۔یہ قدیم اردو کے ایہام گوئی کے اثرات کا ای...

کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔۔۔۔ !

Image
اس کا نام ہی اس ہستی کے نام نامی پر رکھا گیا تھا جسے ’’ذبح اﷲ‘‘ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جی! اس باپ کا بیٹا جسے ’’ابراہیم خلیل اﷲ‘‘ کہا گیا، وہ جو آتش نمرود میں بے خطر کود پڑا تھا اور عقل محو تماشا تھی۔ ابراہیم خلیل اﷲ کا چہیتا فرزند اسمٰعیل ذبیح اﷲ۔ یہ نسبت بھی کیا کمال ہے، انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے ناں۔ وہ بھی اسمٰعیل ہانیہ تھا، جو آگ و خون میں پروان چڑھا تھا۔ اور پھر راہ خدا میں بہ رضا و رغبت قربان ہوگیا۔ وہ اکیلا ہی نہیں اس کا پورا کنبہ۔ دوریزید میں اصل افکار حسینی پر کاربند اور پھر اس نے امام حسینؓ کی پیروی میں اپنے پورے کنبے کو راہ حق میں لٹا دیا اور مسکراتا رہا۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، جنگ تباہی لاتی ہے، بربادی لاتی ہے، آرزوؤں اور خوابوں کو قتل کرتی ہے، زمین کی کوکھ اجاڑتی ہے، قبرستان آباد کرتی اور جینے کو مار دیتی ہے۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ کسی کو بھی نہیں دیکھتی۔ ہر سانس میں زہر بن کر اترتی اور اسے مٹی میں ملا دیتی ہے۔ کھیت کھلیانوں کو جلا کر بھسم کر دیتی اور شہروں کو برباد کرتی ہے۔ بارود بے حس ہوتا ہے، بے شعور ہوتا ہے، وہ کسی کی بھی پروا نہ...

اسمٰعیل ہنیہ۔۔۔۔عزیمت کی داستان شہادت پر تمام ہوئی

گذشتہ روز ایران میں شہید کیے جانے والے ممتاز فلسطینی حریت پسند راہ نما اسمٰعیل ہنیہ ایک طویل عرصے سے خلیجی ملک قطر میں رہائش پذیر تھے، وہ ایک مُدت سے ’غزہ کی پٹی‘ کا دورہ بھی نہیں کرسکے تھے۔ گذشتہ روز خصوصی طور پر نومنتخب ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر تہران پہنچے تھے، جہاں انھیں ان کی رہائش گاہ پر نہایت پراسرار طریقے سے قتل کردیا گیا! تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شدید کشیدگی اور اسرائیل کی جانب سے شدید برہمی کے باوجود انھیں قطر میں محفوظ جائے پناہ حاصل تھی۔ لگتا ہے کہ اسرائیل کے لیے انھیں قطر میں نشانہ بنانا بالکل بھی ممکن نہیں تھا، لہٰذا انھیں تہران میں ہدف بنایا گیا۔ ایران میں ہونے والے حملے کی نوعیت سے متعلق ان سطور کے لکھے جانے تک خاطر خواہ وضاحت نہیں مل سکی ہے کہ آیا انھیں ہدف بنا کر قتل کیا گیا، یا کسی قسم کے راکٹ یا میزائل کا استعمال کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ بوجوہ تفصیلات منظر عام پر لانے سے گریز کیا جا رہا ہو، کیوں کہ یہ عالمی سطح پر ایران کے لیے ایک نہایت مشکل صورت حال ہے کہ اس کا ایک خصوصی مہمان اس کے ملک کی حدود میں اپنی جان سے گزر ...