Posts

Showing posts from October, 2024

حقوق نسواں کے لیے مقامی بیانیے کی تشکیل

پاکستان کی آبادی کا 51 فی صد صنف نازک پر مشتمل ہے، لیکن اس کے باوجود خواتین کو مختلف مسائل درپیش ہیں، بالخصوص دیہات میں بہت سی جگہوں پر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ آج تک برسر اقتدار طبقے نے کبھی بھی خواتین کو قومی ترقی کے دھارے میں بھرپور طریقہ سے شامل کرنے کی عملی کوشش نہیں کی۔ کچھ روایات، کم شرح خواندگی، مردوں کی برتری کا رجحان وغیرہ بڑی وجوہات میں شامل ہیں، مگر سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ملک کی نصف آبادی ہونے کے باوجود خواتین کو قومی سیاست میں وہ مقام نہیں دیا جاتا، جس کی ضرورت ہے، حالاں کہ آئین کے آرٹیکل 34 میں واضح طور پر درج ہے کہ ریاست ایسے تمام اقدام کو یقینی بنائے گی، جن کے ذریعے ہر شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی بھرپور شرکت ممکن ہو۔ آئین کو نافذ ہوئے پچاس برس گزر گئے، مگر  اس وقت بھی ملک کے بہت سے پس ماندہ  علاقے ایسے ہیں، جہاں عورت کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت نہیں ملتی اور دل چسپ امر یہ ہے کہ ان علاقوں میں ملک کی تمام بڑی، چھوٹی سیاسی جماعتیں ایک غیر اعلانیہ معاہدے کے تحت اس پر متفق بھی ہو جاتی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ میں پاکستانی سیاست میں خواتین کی شرکت بڑ...

کوچۂ سخن

غزل کیسے نہ کہا جائے اسے کام کا منظر آنکھوں کی ضرورت ہے در و بام کا منظر دل ہے ہی اندھیروں کا طلبگار سو اس میں اترے گا بہر طور کسی شام کا منظر جس جس میں نہ آئیں گے نظر مجھ کو مرے لوگ میں نام اُسے دوں گا فقط نام کا منظر تب جا کے ہی ہوتی ہے ان آنکھوں کی تسلی جب اِن کو دکھاتا ہوں میں ہر گام کا منظر سو بار جھپک لی ہیں اُسے دیکھتے آنکھیں میں اب بھی سحرؔ کہہ دوں اُسے کام کا منظر (اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال) ۔۔۔ غزل فقط وہی تو نصِ سرمدی سمجھتا ہے کسی کی یاد کو جو بندگی سمجھتا ہے کسی کو کتنے میسر ہیں لوگ دنیا میں کوئی کسی کو مگر آخری سمجھتا ہے اساسِ شعر ہے ملنا، بچھڑنا، غم، یادیں سخن شناس ہے جو عاشقی سمجھتا ہے فرات و علقمہ سے کیا غرض اسے ہوگی جو ریگ زار کی تشنہ لبی سمجھتا ہے وصال یار ہے کچھ اور ایسے قیس کو جو خیال لیلیٰ کو موجودگی سمجھتا ہے ہے ایسا شخص غنیمت جو بزمِ یاراں میں کسی کا ہونا کسی کی کمی سمجھتا ہے پرندے رختِ سفر باندھنے کے خواہاں ہیں خزاں رسیدہ شجر بے رخی سمجھتا ہے ملے تو پاشا ؔکے بارے بھی پوچھنا اس سے جسے ہے دعوی کہ وہ شاعری سمجھتا ہے (عمران حسین ...

روحانی دوست

صائم المصطفے صائم واٹس اپ (0333-8818706) فیس بک (Saim Almustafa Saim) علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ: دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں۔ اول تاریخ پیدائش دوم نام سے! اول طریقہ تاریخ پیدائش: مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے۔ ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے، یعنی باہم جمع کیجیے: 1+2+7+1+9+9=29 29 کو بھی باہم جمع کریں (2+9) تو جواب 11 آئے گا۔ 11 کو مزید باہم جمع کریں (1+1) تو جواب 2 آیا یعنی اس وقت تک اعداد کو باہم جمع کرنا ہے جب تک حاصل شدہ عدد مفرد نہ نکل آئے۔ پس یعنی آپ کا لائف پاتھ عدد/نمبر ہے۔ گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر 2 نکلا۔ اور طریقہ دوم میں: سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد ان کے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔” حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے: 1 کے حروف (ا،ء ،ی،ق،غ) ، 2 کے حروف (ب،ک،ر) ، 3 کے حروف (ج،ل،ش) ، 4 کے حروف (د،م،ت) ، 5 کے حروف(ہ،ن،ث) ، 6 کے حروف (و،س،خ) ، 7 کے حروف (ز،ع،ذ) ، 8 کے حروف (ح،ف،ض) ، 9 کے حروف (ط،ص،ظ) ، احسن کے نمبر (1،8،6،5) تمام نمبروں ک...

کیا پاکستانی قوانین خواتین کے حقوق کا تخفظ فراہم کرتے ہیں؟

عورت خدا کی تخلیق کاایک خوبصورت شاہکار ہے ۔ شاعروں ادیبوں اور لکھاریوں نے عورت پر کئی دیوان لکھ ڈالے۔ علامہ اقبال نے بھی ایک شعر میں اس کی جامع اور دلکش انداز میں تعریف کرتے ہوئے کہا۔ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں بلاشبہ عورت وہ ہستی ہے جس سے تصویر کائنات میں خوش کن رنگ بھرے ہیں۔ عورت بطور بہن بیٹی ، بیوی اور ماں روئے زمین پر تخلیق اور رشتوں کی لازوال تصویر ہے۔ انسانی تاریخ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں عورت کا کردار اہمیت کا حامل رہا ہے۔وہ پتھر کا زمانہ ہو، زرعی ترقی یا صنعتی انقلاب کا دور عورت نے ہمیشہ مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی عورت کو اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کیوں کرنا پڑ رہی ہے؟ خواہ وہ یورپ کی عورت ہو یا مشرق کی، حقوق کی جنگ میں دونوں برابر سرگرم ہیں دونوں کے مطالبات میں تفریق ہو سکتی ہے مگر دونوں ہی حقوق پانے کی خواہاں ہیں۔ حقوق ، جینڈر ایکوالٹی اور آزادی کے نعرے تو ہم بے تحاشا سنتے ہیں کیا پاکستان میں عورتوں کے حقوق پر قانونی قوائد و ضوابط موجود ہیں؟ اور اگر ہیں تو خو...

زباں فہمی نمبر227؛ سبزی خور یا شاکا ہاری

 کراچی:  خاکسار کی صحافت میں آمد بذریعہ تحقیقی مضامین (1985ء میں) اور اَدب میں آمد بذریعہ تراجم (1990ء میں) ہوئی۔ ایک طویل مدت تک شوقیہ یا کبھی کسی بزرگ کی فرمائش پر فرینچ، اِنگریزی، فارسی اور سندھی سے براہ ِراست تراجم (نثرونظم) کیے، دریں اثناء متعدد دیگر غیرملکی زبانوں کا ادب بھی اِنگریزی ہی کے توسط سے اردومیں منتقل کیا۔ اس باب میں میرے بعض’سلسلے‘ نہ صرف بزرگ معاصرین نے پسندکیے بلکہ باقاعدہ کتاب کی شکل میں منضبط کرنے کا مشورہ بھی دیا، مثلاً نوبیل انعام (Nobel Prize) یافتہ اہل قلم (خصوصاً نوبیل انعام برائے ادب یافتہ) کے تعارفی مضامین، مگر مجھے معاشی جدوجہد اور دیگر نجی مسائل نے اتنی مہلت ہی نہ دی اور دیکھتے ہی دیکھتے، لاہور سے اس موضوع پر اوّلین کتاب مرتب وشایع ہوگئی۔ اسی طرح دوسرا اہم موضوع تھا، ’دیسی‘ امریکی ادب (غلط العام وغلط العوام: ریڈ اِنڈین امریکی ادب۔یہ نام ’دیسی امریکی‘ خاکسارہی نے وضع کیا تھا) سے انتخاب بذریعہ تراجم۔اس جہت میں اردوکا دامن خالی تھا، سو بندے نے اپنی جیب سے اچھی خاصی رقم خرچ کرکے ضخیم کتب خریدیں، تراجم کیے اور شایع کرائے۔ ڈاکٹر فہیم اعظمی، مدیر ماہن...

’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کا اجلاس۔۔۔ تازہ ہوا کا جھونکا!

کوئی بھی ملک دنیا کے دیگر ممالک بالخصوص اپنے ہم سائے ممالک سے الگ ہوکر آگے نہیں بڑھ سکتا، فی زمانہ خارجہ تعلقات اور دو طرفہ تعاون کی اہمیت بڑھتی چلی جا رہی ہے، اسی مقصد کے لیے مختلف ممالک ایک دوسرے سے تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے جمع ہوتے رہتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم ایشیا کے مختلف ممالک کی ایک ایسی اہم تنظیم ہے، جس میں چین اور روس جیسی بڑی اور ابھرتی ہوئی طاقتیں بھی موجود ہیں تو پاکستان اور ہندوستان جیسے اہم ترین ہم سائے بھی حصے دار ہیں، چین، تاجکستان، قازقستان اور دیگر کی تزویراتی اور محل وقووع کی اہمیت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ 26 اپریل 1996ء کو پانچ ارکان روس، چین، تاجکستان، قازقستان اور کرغستان کے ہاتھوں قائم ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) دس ارکان پر مشتمل ہے۔ ازبکستان کے بعد 2017ء میں پاکستان اور ہندوستان بھی شامل ہوئے اور ایران اور بیلاروس بالترتیب 2023ء اور 2024ء میں شامل ہوئے۔ 15 اکتوبر 2024ء کو شنگھائی تعاون تنظیم کا 23 واں اہم سہ روزہ اجلاس جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں شروع ہوا، اجلاس میں شریک رکن ممالک کے بیشتر سربراہان حکومت اور وزرا وفاقی دارالحکوم...

بیل گاڑی سے بلٹ ٹرین تک کا سفر

کوسوں دور کا سفر درپیش ہے، اور پا پیادہ وہاں پہنچ پانا امکانات سے ماورا ہے۔ بس پالتو جانوروں کی پشت ہی واحد سہارا ہے۔ بارہ پندرہ چوپایوں پر مشتمل قافلے کی صورت کئی ایام تک یوں ہی چلتے چلتے سالار قافلہ کی خوش خبری جب سنائی دیتی ہے کہ منزل مقصود بس آنے کو ہے، تو اس نوید جاںفزا سے طویل مسافت کی تھکن اور انتظار کی کوفت سہنے والے اہل قافلہ کے پژمردہ چہرے خوشی سے دمک اٹھتے ہیں۔ کئی صدیوں تک یہ قافلے یوں ہی چلتے رہے، کسی نے اہل قافلہ کے دکھ کا مداوا نہ کیا۔ سہولتوں کا رسیا انسانی ذہن بھی شاید ماؤف ہی رہا۔ بے شمار دہائیاں یوں ہی گزرنے پر کسی زیرک نے کمہار کے چاک کو عموداً کھڑا کردیا۔ گویا یہ پہیے کی ابتدا تھی۔ میسو پوٹیما (قدیم عراق) کے آثار قدیمہ سے ملنے والی مٹی کی تختیوں پر مبنی اشکال سے پتا چلتا ہے کہ پہیے کی یہ ایجاد کانسی کے زمانے (3500 سال قبل مسیح) میں قدیمی شہر اُر میں ہوئی۔ حیرت ہے کہ پہیے کو دریافت کرنے والے اُر کے سمیریوں نے اسے روزمرہ کے امور میں استعمال کے قابل بنا کے انسانوں کو راحت فراہم کرنے کے بجائے اسے فوجی رتھوں میں استعمال کر کے راحت کے بجائے باعث آزار بنادیا۔ پھر...

شنگھائی تعاون تنظیم

شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا سربراہی اجلاس 15-16 اکتوبر2024 کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔ جس میں کئی رُکن ممالک کے سربراہان شرکت کر رہے ہیں جبکہ کچھ ممالک نے وزارتی سطح پر شرکت کی ہے۔ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO) ایک بین الحکومتی تنظیم ہے جو یوریشیا میں سیاسی، اقتصادی، دفاعی اور سلامتی کے مسائل پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ اس کی قیادت بنیادی طور پر ریاست کے سربراہان کی کونسل (HSC) اور کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ (HGC) کرتی ہے۔ میزبان ملک: پاکستان حالیہ اجلاس کے لیے SCO کونسل آف ہیڈز آف گورنمنٹ (CHG) کی چیئرمین شپ رکھتا ہے۔ اس سربراہی اجلاس میں SCO کے رکن ممالک پاکستان،بھارت، چین، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور ایران شرکت کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اجلاس کے چیئر مین ہوں گے۔ جبکہ اس اجلاس کے دیگر شرکاء میں وزیر اعظم لی چیانگ، بیلا روس کے وزیر اعظم رومان گولوف چینکو، قازقستان کے وزیر اعظم اولڑاس بیک تینوف، روس کے وزیر اعظم میخائل مشوستن، تاجکستان کے وزیر اعظم کوہر وزیرزادہ، ازبکستان کے وزیر اعظم عبداللہ اریپوف، کرغیزستان کے وزرا کی کابینہ کے چیئرمین ڑاپا...

علاقائی سطح پر سرگرم کردار سے داخلی مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی

وطن عزیز میں 15 سے 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ اس کے ذریعے رکن ممالک کے درمیان علاقائی و عالمی سطح پر کئی شعبوں میں مذید تعاون فروغ پائے گا۔ باہمی تجارت میں اضافہ ہوگا اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع بھی جنم لیں گے۔ تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان سماجی، اقتصادی اور ثقافتی روابط بڑھانے کے لیے بھی یہ اجلاس ممدومعاون ثابت ہو گا۔ اس اجلاس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی حکومتوں کو مل جل کر کام کرنے کے لیے گائیڈ لائن مل جائے گی۔ یہ سربراہی اجلاس عالمی سطح پر پاکستان کی اہیمت میں بھی اضافہ کرے گا جو تین بڑی طاقتوں، چین، روس اور بھارت کے سنگم پر واقع ہے جبکہ جنوب میں ایران اور خلیجی ممالک آباد ہونے کی حقیقت بھی پاکستان کی جغرافیائی و تزویراتی اہمیت نمایاں کرتی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان معاشی مسائل میں گرفتار ہے مگر دنیا کے ایک بڑے ملک اور ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے اس کی وقعت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ علاقائی استحکام کو فروغ دینے کے علاوہ اقتصادی اور ماحولیاتی چیلن...

Planes, trains, and smartphones

The future of public infrastructure is digital, efficient, and for everyone. from Gates Notes https://ift.tt/EMTNHt7

بادلوں میں لپٹا ہوا نانگا پر بت (پہلی قسط)

ایک لمبے عرصے سے میرا یہی معاملہ رہا ہے کہ جب جب مجھ سے کسی نے مشورہ مانگا کہ تارڑ صاحب کو کہاں سے پڑھنا شروع کیا جائے تو میرا جواب ’’نکلے تری تلاش میں‘‘ ہی ہوتا تھا۔ اس کتاب کے بعد اگر مزید مشورہ مانگا جاتا تو میں نے ہمیشہ ’’خانہ بدوش‘‘ کو ووٹ دیا۔ اس کتاب کے بعد میں نے سب کو یہی کہا کہ اب جو مرضی پڑھو، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پہلے پہل سمجھ نہ آتی تھی کہ تارڑ صاحب کے یہی دو سفرنامے میرے پسندیدہ کیوں ہیں مگر اب اس کا جواب شاید میرے پاس ہے۔ تارڑ صاحب کے صرف یہی وہ دو سفر نامے ہیں جس میں وہ ہمیں ایک ٹریولر کے طور پر نظر آتے ہیں جب کہ باقی جگہ وہ ٹورسٹ معلوم پڑتے ہیں۔ ’’اندلس میں اجنبی‘‘ میں بھی وہ ٹریولر ہی ہیں مگر اس سفرنامے کی نوعیت کچھ اور ہے۔ اس لیے اس کا ذکر یہاں نہیں کر رہا۔ جتنے منہ اتنے ٹریولر اور ٹورسٹ میں فرق مگر شاید ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ٹورسٹ دنیا کے مصائب سے، دنیا سے دور بھاگنا چاہتا ہے، زندگی کے مسائل کو کچھ دیر کے لیے بھول کر ایک پُر سکون جگہ پر جانا چاہتا ہے جب کہ ایک ٹریولر گھر سے نکل جانے کے بعد اپنے سفر کے ایک ایک پَل کو جینا چاہتا ہے۔ وہ گاڑیوں، بسوں، ریل گاڑیوں...